Home Blog Page 16

محبت کی انوکھی کہانی

0

 

Mohabbat Ki Anokhi Kahani

 

 

 محبت کی انوکھی کہانی

 پہلی نظر کا پیار

فیروزہ ایک چھوٹے سے گاؤں کی رہنے والی تھی۔ اُس کی زندگی سیدھی سادی تھی۔ روزمرہ کے کاموں میں مصروف رہنا، کھیتوں میں کام کرنا، اور شام کو دریا کے کنارے بیٹھ کر خوابوں میں کھونا اُس کا معمول تھا۔

ایک دن، گاؤں میں ایک میلہ لگایا گیا تھا۔ فیروزہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ وہاں گئی۔ میلے میں ہر طرف روشنی، رنگین غبارے اور موسیقی کا شور تھا۔ وہاں ایک جوان لڑکا، زین، اپنے دوستوں کے ساتھ آیا ہوا تھا۔ زین شہر سے آیا تھا اور اپنی خوشبو بکھیرتے ہوئے، میلے کی رونق میں اضافہ کر رہا تھا۔

جب زین کی نظر پہلی بار فیروزہ پر پڑی، وہ دنگ رہ گیا۔ فیروزہ کے خوبصورت آنکھوں میں اُسے ایک الگ ہی دنیا نظر آئی۔ وہ اس کی طرف کھنچتا چلا آیا اور دونوں کی نظریں ملیں۔ دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں اور وقت تھم سا گیا۔

 خوابوں کا آغاز

زین اور فیروزہ کی ملاقاتیں اکثر ہونے لگیں۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے لگنے لگے۔ محبت نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی تھیں۔ زین نے فیروزہ سے اپنی محبت کا اظہار کیا، اور فیروزہ نے بھی اپنے دل کی بات کہہ دی۔ دونوں نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا کہ وہ زندگی بھر ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔

 امتحان کا وقت

مگر محبت کی راہ میں مشکلات بھی آتی ہیں۔ فیروزہ کے والدین کو جب اس بات کا علم ہوا تو وہ بہت ناراض ہوئے۔ ان کی نظر میں زین ایک اجنبی تھا جو ان کی بیٹی کو لے جانا چاہتا تھا۔ زین کے خاندان کو بھی یہ رشتہ قبول نہ تھا کیونکہ ان کے لیے گاؤں کی لڑکی کے ساتھ زین کا رشتہ کرنا مشکل تھا۔

 محبت کی جیت

زین اور فیروزہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے والدین کو اپنی محبت کی سچائی دکھائیں گے۔ انہوں نے اپنے والدین کو سمجھایا کہ ان کی محبت سچی اور پاکیزہ ہے۔ ان کی محنت اور محبت نے آخرکار والدین کے دل جیت لیے۔ دونوں خاندانوں نے مل کر زین اور فیروزہ کی شادی کا فیصلہ کیا۔

 محبت کا اختتام، نہیں بلکہ آغاز

زین اور فیروزہ کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔ دونوں نے ایک ساتھ زندگی کی نئی شروعات کی۔ محبت کی یہ انوکھی کہانی ثابت کرتی ہے کہ سچی محبت ہر مشکل کو پار کر لیتی ہے اور آخرکار جیت محبت کی ہی ہوتی ہے۔

یہ کہانی اس بات کی مثال ہے کہ محبت اور سچائی کے سامنے کوئی بھی رکاوٹ زیادہ دیر تک کھڑی نہیں رہ سکتی۔ 

لومڑی اور کوا

0

 

Lomdi Aur Kauwa

 

 

لومڑی اور کوا

ایک لومڑی دو دن سے بھوکی تھی۔ اسے کہیں بھی کھانے کو کچھ نہ ملا تھا۔ وہ شہر کے قریب آگئی۔ اچانک کیا دیکھتی ہے کہ ایک درخت پر ایک کو ابیٹھا ہے۔ اس کوے کے منہ میں ایک ثابت روٹی ہے۔ لومڑی کے منہ میں پانی بھر آیا۔ اس نے ایک ترکیب سوچی۔ وہ کوے کی تعریف کرنے لگی۔ بھائی کوے تم کتنے خوبصورت ہو۔

تمہارے پر کتنے خوبصورت ہیں۔ تم چاہے راوی میں نہاؤ یا جہلم میں تمہارا رنگ ایک جیساری رہتا ہے۔ بیچ بیچ تم پرندوں کے راجہ ہو۔ تمہارا گا نا بہت میٹھا ہے۔ بانسری سے بھی بیٹھا۔ دل تمہارا گانا سننے کو ترس رہا ہے۔ زرا گانا گا کر سناؤ”۔ کوے نے اپنی اتنی تعریف سنی ۔ وہ پھول کر گیا ہو گیا۔ اس نے گانا گانے کے لئے چونچ کھولی۔ چونچ کھلتے ہی روٹی بیچے آگری۔ لومڑی بڑے چاؤ سے اسے کھانے لگی۔ کو امنہ دیکھتا رہ گیا۔
بھوکی شہر اچانک ثابت ترکیب تعریف
خوبصورت سچ مچ میٹھا
بانسری ترسنا
چاؤ

چوہا اور شیر

0

 

Chuha Aur Sher

چوہا اور شیر

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جنگل میں ایک شیر رہتا تھا۔ ایک دن وہ شیر سورہا تھا کہ اچانک ایک چوہاوہاں آگیا اور شیر کے بالوں میں گھس کر کھیلنے لگا۔ اچانک شیر کی آنکھ کھل گئی اس نے چوہے کو پکڑ لیا۔ چوہا ڈر گیا وہ شیر سے منت کرنے لگا کہ ”مجھے چھوڑ دو ۔ میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔ شیر کو اس پر رحم آگیا۔ اس نے چوہے کو چھوڑ دیا۔ چوہا جاتے جاتے شیر سے کہنے لگا کہ ” میں اس احسان کا بدلہ ضرور دوں گا“۔

شیر ہنس پڑا۔ ایک دن کچھ شکاری جنگل میں آگئے انہوں نے جال ڈال کر شیر کو پکڑ لیا۔ وہاں اچانک وہی چوہا بھی آگیا۔ اس شیر پکڑلیا۔ نے اپنے دانتوں سے جال کو کاٹ دیا۔ اس طرح شیر آزاد ہو گیا۔ شیر نے چوہے کا شکریہ ادا کیا۔ چوہے نے کہا کہ ”کوئی بات نہیں ایک دن آپ نے میری مدد کی تھی اور آج میں نے
آپ کی مدد کر دی ۔ اس میں شکریہ کس بات کا “۔
جنگل اچانک ڈر جانا
احسان بدله
شکاری جال
آزاد
شکریہ مدد کرنا

ہاتھی اور درزی

0

 

Hathi Aur Darzi

 

ہاتھی اور درزی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک درزی اپنی دکان میں بیٹھا کپڑے سی رہا تھا۔ کہ اچانک سے وہاں ایک ہاتھی کا بچہ آگیا۔ اور اچانک اونچا اونچا بولنے لگا۔ درزی نے اس کو ایک روٹی کا ٹکڑادیا۔ وہ تھی ہمیشہ درزی کی دکان پر آتا تھا۔ ایک دن ہاتھی آیا لیکن درزی نے اس کو روٹی کے بجائے سوئی چبھادی ۔

ہاتھی بھاگ گیا۔ اگلے دن ہا تھی پھر آگیا لیکن اس کی سونڈھ کیچڑ سے بھری ہوئی تھی۔ اور اس نے اپنی سونڈھ سے کیچڑ درزی کے کپڑوں پر پھینک دیا۔ درزی کے سارے کپڑے خراب ہو گئے۔ درزی سر پکڑ کر رونے لگ گیا۔ اس کہانی سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ جیسا کروگے ویسا بھرو
گے۔
                       
سونڈھ     ذکر                    
درزی
دکان
خراب ہونا
رونا
سبق
جیسا

چوں چوں چوہا

0

 

Chu Chu Chuha

 

چوں چوں چوہا
سویر اہوا۔ چوں چوں چوہا اپنے بل سے باہر نکلنے لگا۔ سامنے بلی بیٹھی تھی۔ چوہے نے سوچا میں باہر نکلا تو لی مجھے کھا جائے گی ۔ بلی کہنے لگی ” پیارے چوہے باہر نکل آؤ چوں چوں نے کہا ” میں باہر نہیں آؤں گا بلی نے پوچھا کیوں؟ چوں چوں کہنے لگا ” میں باہر آؤں گا تو تم مجھے کھا جاؤ گی “

بلی نے کہا ”اللہ نہ کرے میں تمہیں کیوں کھاؤں گی۔ میں تو تمہیں دوست بنانے آئی ہوں۔ یہ دیکھو میں ہاتھ بڑھاتی ہوں تم مجھ سے ہاتھ ملاؤ، میرے دوست بن جاؤ چوں چوں بولا ” بلی خالہ میں نہیں آؤں گا۔ تم جاؤ ادھر دیکھو ٹیپو کتا کھڑا ہے۔ اُس سے ہاتھ ملاؤ“۔ بلی نے کتے کو دیکھا۔ اس کا دم نکل گیا۔ وہ اُچھل کر کھڑ کی پر چڑھ گئی۔ کسی
طرح اپنی جان بچائی۔
سویرا
بل
سوچا
ہاتھ ملانا
دوست بن جانا
خاله
دم نکل جانا
اچھل جانا
چڑھ جانا
جان بچان

ائیر پورٹ کی کہانی اور ایمان کی اہمیت

0

 

Airport Ki Kahani Aur Imaan Ki Ahmiyat

ائیر پورٹ کی کہانی اور ایمان کی اہمیت

ائیر پورٹ پر ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ مسافر اپنے پاسپورٹ اور ٹکٹ کو بہت ہی احتیاط سے سنبھال کر رکھتے ہیں۔ کبھی وہ ان کو ہاتھ میں مضبوطی سے تھامے ہوتے ہیں، اور کبھی جیب یا بیگ میں رکھ کر بار بار چیک کرتے ہیں کہ وہ صحیح سلامت موجود ہیں یا کہیں گم نہ ہو جائیں۔ ہر کسی کو پتہ ہوتا ہے کہ اگر یہ اہم دستاویزات کہیں کھو جائیں تو وہ اپنی فلائٹ میں سوار نہیں ہو سکیں گے۔ جہاز میں سوار ہونے کے لیے کئی بار چیک ہوتا ہے اور جہاز سے اترنے کے بعد بھی ان کی ضرورت پڑتی ہے۔

یہ منظر ہمیں ہماری آخرت کی یاد دلاتا ہے، جہاں ہمارے ایمان اور اعمالِ صالحہ ہی ہمارے پاسپورٹ اور ٹکٹ ہیں۔ جیسے ائیر پورٹ پر مسافر اپنے ٹکٹ اور پاسپورٹ کا بار بار جائزہ لیتے ہیں، ہمیں بھی اپنے ایمان اور اعمال کو بار بار چیک کرتے رہنا چاہیے۔ ہمیں خود سے سوال کرنا چاہیے کہ جو فرائض اللہ تعالیٰ نے ہم پر عائد کیے ہیں، کیا ہم انہیں پورا کر رہے ہیں؟ یہ فرائض چاہے حقوق اللہ میں ہوں یا حقوق العباد میں۔

:حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا

“اپنے اعمال کا محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے، اور اپنے اعمال کو تولو اس سے پہلے کہ وہ تولے جائیں”۔ اسی طرح ہمیں اپنی نمازوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے، کیونکہ روزِ قیامت سب سے پہلا سوال نماز ہی کے بارے میں ہوگا۔

جیسے ائیر پورٹ پر مسافر اپنے پاسپورٹ اور ٹکٹ کو چیک کرتے ہیں، اسی طرح ہمیں بھی آج ہی اپنے ایمان اور اعمال کا جائزہ لینا چاہیے۔ ہمارا ایمان اور ہمارے نیک اعمال ہی جنت کے دروازے کھولنے کی چابی ہیں۔ یہ ایک یاد دہانی ہے سب سے پہلے میرے اپنے لیے اور پھر آپ سب کے لیے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کا ایمان سلامت رکھے اور ہمیں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! 🤲🏻

امید ہے کہ یہ پیغام آپ کو اپنے ایمان اور اعمال کا محاسبہ کرنے کی ترغیب دے گا تاکہ ہم سب اپنی آخرت کی تیاری بہتر طریقے سے کر سکیں۔ اگر یہ پیغام پسند آئے تو اس پر ہارٹ ری ایکٹ ضرور دیں۔

 

نیکی ضائع نہیں جاتی

0

 

Neki zaya nahi jati

  نیکی ضائع نہیں جاتی

                                                                                                            صدیوں پرانی بات ہے پرانی بات ہے ہندوستان پر اس وقت کے راجہ مہاراجے حکومت کیا کرتے تھے ۔ ایک ہندو راجے نے بہت سے علاقوں پر قبضہ کیا ہوا تھا، وہ ایک ظالم بادشاہ تھا،بات بات پر وزیروں کو قتل کروادیا کرتا تھا۔ اُس کا ایک وزیر ایک عقلمند اور رحمدل شخص تھا ، وہ رعایا سے نیک سکول کرتا تھا اور اُن کی مدد بھی کرتا تھا۔ وہ ایک مرتبہ دریا کی دوسری طرف جانے کیلئے دریا پر پہنچا تو اُس نے دیکھا کے ایک ملاح نئی کشتی لئے اُس کے استقبال کیلئے موجود ہے۔

جب وہ دوسری طرف پہنچا تو وزیر نے دیکھا کہ بادشاہ کے ہر کارے کشتی پر قبضہ کرنے کیلئے تیار کھڑے ہیں۔وزیر نے ملاح کی کشتی ان سے بچا لی تو وہ وزیر کا شکریہ کرتے ہوئے واپس لوٹ گیا۔کچھ عرصے بعد کسی نے اس مسئلہ پر وزیر کے خلاف بادشاہ کے کان بھرنا شروع کردیئے۔ بادشاہ تو پہلے ہی موقع کی تلاش میں تھا کہ کس طرح وزیر سے بدلہ لے۔ کچھ عرصے پہلے دوسرے بادشاہ بنے اُسے سفید ہاتھی کا تحفہ دیا تھا، وہ بچہ تھا مگر اب جوان ہوگیا تھا، بادشاہ بمعہ اپنے وزراء اور درباریوں کے اسے دیکھنے گیا۔ تمام درباری اور وزراء اُسکی تعریف کررہے تھے۔ بادشاہ وزیر سے انتقام لینا بھولا نہیں تھا۔ اُس نے وزیر سے کہا:

مجھے اس ہاتھی کا ٹھیک وزن بتاؤ ورنہ تمہیں قتل کردیا جائے گا، دس دن کی مہلت ہے۔ وزیر بہت پریشان ہوا وہ مختلف تدبیروں کا سوچنے لگا مگر کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ وہ پریشانی کے عالم میں د ریا کی طرف نکل گیا اور وہاں بیٹھ کر سوچ وبچار کرنے لگا۔ اِسی دوران وہی کشتی والا بزرگ اُس کے پاس آیا اور جھک کرسلام کیا۔ وزیر کو پریشان دیکھاکر پوچھا: وزیر محترم !

کیا بات ہے، آپ پریشان لگ رہے ہیں۔ ہاں بزرگو ! بادشاہ نے ایک الجھن میں ڈال دیا ہے۔ دس دن کی مہلت تھی، آج آٹھواں دن ہے، اگر جواب نہ دیا تو میری گردن اُڑادی جائیگی۔ وہ اُلجھن کیا ہے؟ شاید میں کچھ مدد کرسکوں۔ بات یہ ہے کہ بادشاہ کے پاس ایک سفید ہاتھی ہے، وہ اُسکا وزن بتانے کا کہہ رہا ہے ، ورنہ میری گردن․․․․․․ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ،چٹکی بجاتے ہی حل ہوگیا ہے، آپ کا مسئلہ ․․․․ میری جان کو بنی ہے، آپ چٹکی بجاتے مسئلہ حل کررہے ہیں۔ وزیر نے حیرت سے کہا۔ جی محترم!

آپ کل ہاتھی لائیے ، اسے کشتی پر بیٹھا کر دریا میں اُتارتے ہیں جتنے کشتی پانی کے اند جائے گی، اس پر نشان لگائیں گے پھر اتنے وزن کے پتھر کو نشان تک کشتی پانی میں لیجا کر ڈال کر وزن کرلیں۔ ویری گڈ․․․․ وزیر کی سمجھ میں ساری بات آگئی۔ اگلے دن وہ ہاتھی کو دریا کے کنارے لایا، اُسے کشتی میں سوار کرکے دریا میں لیجا کر کشتی پر نشان لگا دیا۔

پھر اُس نشان تک پتھر ڈال کر وزن کیا گیا پھر اُن پتھروں کا وزن کیا اور بادشاہ کو بتادیا۔ اب بادشاہ حیران ہوا کہ یہ کیسے ممکن ہے جب اُسے بتایا تو بہت خوش ہو ا ایک نیکی کا یہ صلہ دیا ہے جبکہ اُس وزیر نے بہت سے معاملات میں بادشاہ ک
ی رہنمائی کی تھی اور اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ نیکی کر دریا میں ڈال وزیر نے ملاح کیساتھ نیکی کی اور ملاح نے نیکی کرکے اس کی جان بچائی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نیک کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین                                                                                         

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے والد کی کہانی

0

 

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے والد کی کہانی

 

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کہانی

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کہانی ہمارے لئے والدین کے احترام کی بہترین مثال ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد کو ہمیشہ ادب اور احترام کے ساتھ مخاطب کیا، چاہے وہ ان کی بات سے اتفاق نہ بھی رکھتے ہوں۔ قرآن میں ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے الفاظ ملتے ہیں:

“اے ابّا جان، میں نے وہ علم پایا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا۔ لہذا آپ میری پیروی کریں، میں آپ کو سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کروں گا۔”(سورہ مریم، 19:43)

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد کے ساتھ نرم دلی اور محبت کا برتاؤ کیا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے والد کافر ہیں اور انہوں نے ان کی نصیحتوں کو قبول نہیں کیا۔ اس سے ہمیں سیکھنے کو ملتا ہے کہ والدین کا احترام اور ان کے ساتھ حسن سلوک کسی بھی حال میں کم نہیں ہونا چاہیے

والدین کی عظمت اور ان کی خدمت کا پیغام

 

اگر آپ کے والدین زندہ ہیں، تو ان کے ساتھ وقت گزاریں اور ان کی خدمت کریں۔ والدین کی دعا اور ان کے ساتھ محبت کا برتاؤ ہماری دنیا اور آخرت دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ وہ ہمارے اصل ہیرو ہیں اور کی محبت اور دعائیں ہمارے لیے سب سے قیمتی خزانہ ہے۔ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کریں اور ان کے لئے ہمیشہ دعائیں کریں۔ ان کے ساتھ گزارا وقت سب سے زیادہ قیمتی ہے۔

قرآن کی مقدس آیات سورہ الإسراء میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے حق میں فرمایا:

“اور تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، تو انہیں ‘اف’ بھی نہ کہو اور نہ ہی انہیں جھڑکو، بلکہ ان سے نرمی کے ساتھ بات کرو۔” (سورہ الإسراء، 17:23)

آئیے آج ہم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا عہد کریں اور ان کی محبت اور ان کے ساتھ کی قدر کریں۔

اور اگر آپ کے والدین اس دنیا میں نہیں ہیں، تو ان کے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کی روح کو دائمی سکون عطا فرمائے۔

امید ہے کہ یہ پیغام آپ کو والدین کی قدر کرنے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ترغیب دے گا۔

اگر یہ پیغام پسند آئے تو اس پر ہارٹ ری ایکٹ ضرور دیں۔

اللہ پر بھروسہ اور دنیا کی مایوسیاں

0

اللہ پر بھروسہ اور دنیا کی مایوسیاں

 

 

اللہ پر بھروسہ

کئی بار ہم دوسرے لوگوں کے الفاظ یا رویوں کی وجہ سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ لوگ ہمیں کبھی یہ احساس دلاتے ہیں کہ ہم ناکام ہیں، ہمارے خواب بے معنی ہیں یا ہمارے مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے۔ مگر ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا نصیب لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ وہ ہمارے “مالک” نہیں ہیں، نہ ہی وہ ہمارے “رازق” ہیں۔ ہمارا مقدر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، جس نے ہمیں تخلیق کیا اور جس نے ہماری زندگی کے ہر لمحے کا پہلے سے ہی فیصلہ کر رکھا ہے۔

قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

“اے لوگو! اللہ کے سوا نہ کسی کو تمہارا ولی بناؤ اور نہ مددگار۔” (سورہ النساء، 4:45)

یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اللہ ہی ہمارا حقیقی سرپرست اور مددگار ہے۔ ہمیں اس بات کا یقین رکھنا چاہیے کہ صرف اللہ ہی ہے جو ہمارے لیے آسانیاں پیدا کر سکتا ہے، اور جس نے ہم سے خود آسانیوں کا وعدہ کیا ہے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کی کہانی ہمیں اس بات کا سبق دیتی ہے کہ اللہ پر بھروسہ رکھنا کبھی ہمیں مایوس نہیں کرتا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کی گمشدگی کے بعد بھی اللہ پر بھروسہ کیا، اور اپنے بیٹوں کو نصیحت کی کہ وہ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں۔ قرآن میں بھی حضرت یعقوب علیہ السلام کے الفاظ ہمیں ملتے ہیں:

“میرے بیٹو! جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کی خبر لو، اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک اللہ کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوتے ہیں۔” (سورہ یوسف، 12:87)

ہمیں بھی اس بات کا یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ نے ہمارے لیے جو کچھ طے کیا ہے، وہی ہمارے لیے بہتر ہے۔ ہمیں لوگوں کے منفی الفاظ یا رویوں کو اپنے دل میں جگہ نہیں دینی چاہیے۔ ہمارے خواب، ہماری امیدیں اور ہمارے مقاصد اللہ کی مرضی سے ہی پورے ہو سکتے ہیں، نہ کہ لوگوں کی رائے یا اعتراضات سے۔

امید ہے کہ یہ پیغام آپ کو اللہ پر بھروسہ کرنے اور لوگوں کی مایوسیوں سے بچنے کی ترغیب دے گا۔

اگر یہ پیغام پسند آئے تو اس پر ہارٹ ری ایکٹ دیں اور شیئر ضرور کریں۔ 

نماز کی اہمیت اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کہانی

0

 

نماز کی اہمیت اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کہانی

 

 

حضرت ابراہیم علیہ السلام

حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نہایت فرمانبردار بندے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی رضا کے لئے وقف کر دیا تھا۔ ان کی نماز اور عبادات کی فضیلت قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے۔ ایک دن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی:

“اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد کو بھی، اے ہمارے رب! اور میری دعا قبول فرما۔” (سورہ ابراہیم، 14:40)

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا ہمیں سکھاتی ہے کہ نماز کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنانا چاہئے اور اپنی اولاد کو بھی اس کی اہمیت سے آگاہ کرنا چاہئے۔ نماز نہ صرف اللہ کے قریب کرتی ہے بلکہ ہماری زندگی میں سکون اور برکت کا باعث بنتی ہے۔

نماز کا ترک کرنا اور اس کے نقصانات

ایک دن ایک بزرگ شخص آیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا: “میں اپنی زندگی میں بہت سی مشکلات کا سامنا کر رہا ہوں۔ میں نے اپنے کاروبار میں نقصان اٹھایا ہے، میری صحت بھی خراب ہو گئی ہے اور میرے خاندان میں بھی مشکلات ہیں۔”

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس شخص سے پوچھا: “کیا آپ نماز ادا کرتے ہیں؟”

بزرگ نے جواب دیا: “نہیں، میں نے نماز چھوڑ دی تھی۔”

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس شخص کو نصیحت کی: “نماز اللہ کی رحمت اور مدد حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ جب آپ نماز چھوڑ دیتے ہیں، تو آپ اللہ کی رحمت سے دور ہو جاتے ہیں اور مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ نماز کو دوبارہ اپنی زندگی کا حصہ بنائیں اور اللہ سے مدد طلب کریں۔”

نماز کی اہمیت

حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: “نماز دین کا ستون ہے، جس نے اسے قائم کیا، اس نے دین کو قائم کیا اور جس نے اسے چھوڑ دیا، اس نے دین کو گرا دیا۔”

نماز ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ یہ نہ صرف اللہ کے قریب ہونے کا ذریعہ ہے بلکہ ہماری مشکلات اور مسائل کا حل بھی ہے۔ ہمیں اپنی نماز کو کبھی بھی ترک نہیں کرنا چاہئے اور ہمیشہ اللہ کی رحمت اور مدد حاصل کرنے کے لئے اس کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔

امید ہے کہ یہ کہانی آپ کو نماز کی اہمیت اور اس کی فضیلت کو سمجھنے میں مدد دے گی اور آپ کو ترغیب دے گی کہ آپ اپنی نماز کو کبھی بھی ترک نہ کریں۔

اگر یہ پیغام پسند آئے تو اس پر ہارٹ ری ایکٹ دیں اور شیئر ضرور کریں۔