Azan Ka Jawab Dene Ki Shrey Hadis

 

 

اذان کے جواب دینے کی شرعی حیثیت

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ اذان کا جواب کب کونسے الفاظ میں دینا چاہیے۔؟ کیا مسجد کے اندر اور مسجد کے باہر دونوں جگہ اذان کا

جواب دینا ضروری ہے۔؟ سائل: صاحبزادہ قاری محمد عبد الصمد ، چیچاوطنی

الجواب بعون الملک الوهاب:

جب مؤذن کی اذان سنے تب جواب دینے کا حکم ہے۔ مؤذن جو کلمات کہے سننے والا بھی وہی کلمات کہے۔ لیکن ، ، حَيَّ عَلَی الصَّلاةِ، ، اور ، حَيَّ عَلَی

الفلاح ،، کے الفاظ پر ، ، لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ ،، اور اس کے ساتھ یہ کلمات بھی کہہ لے تو بہتر ہے ، مَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ، وَمَا لَمْ يَشَأْلَمْ

یکن ،، اور جب مؤذن فجر کی اذان میں ،، الصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْمِ ،، کہے تو سنے والا ، صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ وَبِالْحَقِّ نَطَقتَ ،، کہے۔ سیدنا ابو

سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی بی ایم نے فرمایا: إِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَاء فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ المُؤَذِّنُ جب تم اذان

سنو ، تو اس کی مثل جواب دو جو مؤذن کہتا ہے۔ (صحیح بخاری ، کتاب الاذان، باب ما يقول اذا سمع المنادى، رقم الحديث، 611، دار طوق

النجاة ) صدر الشریعہ علامہ محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : جب اذان سنے ، تو جواب دینے کا حکم ہے، یعنی مؤذن جو کلمہ کہے، اس کے بعد سننے والا

بھی وہی کلمہ کہے، مگر ،، حتى عَلَى الصَّلوة حَى عَلَى الْفَلَاحِ ،، کے جواب میں ،، لا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہ، کہے اور بہتر یہ ہے کہ دونوں کہے،

بلکہ اتنا لفظ اور ملالے ، ما شَاءَ اللهُ كَانَ وَمَا لَمْ يَشَأْ لَمْ يَكُن – (بہار شریعت ، جلد 1 ، الف ، حصہ سوم ، صفحہ 472 ، مسئلہ نمبر 54، مکتبة

المدینہ کراچی ) آپ رحمۃ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں : ،، الصَّلوةُ خَيْرٌ مِنَ النَّوْم ،، کے جواب میں ،، صَدَقْتَ وَ بَرَرْتَ وَبِالْحَقِّ نَطَقتَ …

کہے۔ (بہار شریعت ، جلد 1 ، الف ، حصہ سوم صفحہ 472 ، مسئلہ نمبر 55 ، مکتبۃ المدینہ کراچی) اور جب مؤذن پہلی مرتبہ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا

رسُولُ الله ،، کہے تو سنے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ درود شریف پڑھے ، صَلَّى اللهُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ ،، اور جب دوسری مرتبہ ، أَشْهَدُ

أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ ،، کہے تو سنے والا اپنے انگوٹھوں کو بوسہ دے کر آنکھوں سے لگالے اور یہ کلمات پڑھے، قُرَّةٌ عَيْنِي بِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ

ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُمَّ مَتَعْنِي بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ ،، – علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں : يُسْتَحَبُّ أَنْ يُقَالَ عِنْدَ سَمَاعِ الْأُولَى

مِنَ الشَّهَادَةِ : صَلَّى اللهُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ وَعِنْدَ الثَّانِيَةِ مِنْهَا : قُرَّةً عَيْنِي بِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُمَّ مَتَّعْنِي

بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ بَعْدَ وَضْعِ ظُفْرَى الْإِبْهَامَيْنِ عَلَى الْعَيْنَيْنِ فَإِنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ يَكُونُ قَائِدًا لَّهُ إِلَى الْجَنَّةِ، كَذَا فِي كَنْزِ

الْعِبَادِ ( رد المحتار، کتاب الصلوة ، باب الاذان ، مطلب : في كراهة تكرار الجماعة في المسجد ، جلد 1 ، صفحہ 398 ، دار الفکر، بیروت ) صدر الشریعہ علامہ

محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : جب مؤذن أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ کہے، تو سننے والا درود شریف پڑھے اور مستحب ہے کہ انگوٹھوں

کو بوسہ دے کر آنکھوں سے لگالے اور کہے قُرَّةُ عَيْنِي بِكَ يَا رَسُولَ اللهِ اللَّهُمَّ مَتِّعْنِي بِالسَّمْعِ وَالْبَصَر – ( بہار شریعت ، جلد 1 ، الف ، حصہ

سوم ، صفحہ 474، مسئلہ نمبر 64، مکتبۃ المدینہ کراچی ) اذان کا جواب دینا ضروری یعنی واجب نہیں بلکہ مستحب ہے، چاہے آپ مسجد کے اندر ہیں یا باہر ۔

نیز اذان کی طرح اقامت کا جواب دینا بھی مستحب ہے۔ اور اقامت میں قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ کے جواب میں أَقَامَهَا اللهُ وَآدَا مَهَا مَا دَامَتِ

السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ کہے۔

 

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here